ترجمہ:آپ سے
ماہِ حرام میں جہاد کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تم فرماؤ: اس مہینے میں لڑنا
بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ
سے روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنااور اس کے رہنے والوں کو
وہاں سے نکال دینا اللہ کے
نزدیک اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے اورفتنہ قتل سے بڑا جرم ہے۔
تفسیر:نبی
کریم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عبداللہ بن
جحش رَضِیَ اللہُ
تَعَالیٰ عَنْہُکی سربراہی
میں مجاہدین کی ایک جماعت روانہ فرمائی تھی جس نے مشرکین سے جہادکیا ۔ ان کا خیال
تھا کہ لڑائی کا دن جمادی الاُخریٰ کا آخر ی دن ہے مگر حقیقت میں چاند 29تاریخ کو
ہوگیا اور رجب کی پہلی تاریخ شروع ہوگئی تھی۔ اس پر کفار نے مسلمانوں کوشرم دلائی
کہ تم نے ماہِ حرام میں جنگ کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے اس کے
متعلق سوال ہونے لگے تواس پر یہ آیت نازل ہوئی(قرطبی،ج 2،ص32) اور فرمایا گیا کہ
ماہِ حرام میں لڑائی کرنا اگرچہ بہت بڑی بات ہے لیکن مشرکوں کا شرک،
مسلمانوں کو ایذائیں دینا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکوستانا یہاں
تک کہ ہجرت پر مجبور کردینا، لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا، نبی کریم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اورمسلمانو ں کو مسجد ِ حرام
میں نماز پڑھنے سے روکنا، دورانِ نماز طرح طرح کی ایذائیں دینا، یہ ماہِ حرام میں
لڑائی سے بڑا جرم ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کرتوت دیکھ لو پھر
مسلمانوں پراعتراض کرنا۔تمہارے یہ افعال مسلمانوں کے فعل سے زیادہ شدید ہیں کیونکہ
کفر و ظلم تو کسی حالت میں جائز نہیں ہوتے جبکہ لڑائی تو بعض صورتوں میں جائز ہوہی
جاتی ہے، نیز مسلمانوں نے جو ماہِ حرام میں لڑائی کی تو وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ
سے تھی کہ چاند کی تاریخ ان پر مشکوک ہوگئی لیکن کفار کا کفر اور مسلمانوں کو
ایذائیں بلا شک و شبہ ظلم و سرکشی ہے ، پھر تم کس منہ سے مسلمانوں پر اعتراض کر
رہے ہو۔
نوٹ:ابتدائے
اسلام میں رجب ، ذی قعدہ،ذی الحج اور محرم اِن چار مہینوں میں جنگ کرنا حرام تھا۔ ان حرمت
والے مہینوں کا بیان سورۂ توبہ آیت36 میں
بھی موجود ہے لیکن بعدمیں جنگ کی ممانعت کا حکم سورۂ توبہ آیت نمبر5سے
منسوخ ہو گیا۔
تنبیہ:اپنے بڑے عیبوں کو بھلا کردوسروں کے چھوٹے عیبوں پر طعنہ
زنی کرنا سخت مذموم(بُرا) ہےجیسے لوگ جہاں بھر کی غیبتیں کرتے ہیں جبکہ
ان سے زیادہ عیبوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔نیز فتنہ انگیزی قتل سے بڑھ کر جرم ہے
اورفتنے پھیلانے والے پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment